امریکی محکمہ خارجہ نے بالواسطہ طور پر تصدیق کی ہے کہ پاکستان نے 10 مئی کو بھارت کے ساتھ سیزفائر کے معاہدے کے لیے کسی قسم کا کوئی وعدہ یا یقین دہانی نہیں کرائی۔ یہ سیزفائر اس وقت طے پایا جب پاکستان نے بھارتی فضائی اڈوں پر حملے کے جواب میں میزائل اور ڈرون حملے کیے تھے۔
محکمہ خارجہ نے یہ بھی اشارہ دیا کہ واشنگٹن بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے اور اس کوشش کو جاری رکھے گا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزارت خارجہ نے منگل کے روز پاکستان کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت کو مسترد کیا تھا۔ مودی نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سیز فائر کیلئے پاکستان نے درخواست کی تاہم بھارت میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ اگر پاکستان نے سیز فائر مانگی تھی تو بھارت نے اپنی مرضی کی یقین دہانیاں کیوں نہیں حاصل کی۔
13 مئی کو پریس بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ٹومی پگوٹ نے کہا کہ امریکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ سیزفائر کا خیرمقدم کرتا ہے اور دونوں ممالک کے رہنماؤں کو امن کے راستے کا انتخاب کرنے پر سراہتا ہے۔ تاہم انہوں نے پاکستانی قیادت کی جانب سے دہشت گردی کے نیٹ ورکس ختم کرنے کی کسی بھی ممکنہ یقین دہانی پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔
ایک بھارتی صحافی کے سوال پر کہ آیا پاکستان نے دہشت گردی کے ڈھانچے کے خاتمے کے لیے کوئی یقین دہانی کرائی ہے؟ پگٹ نے جواب دیا: ”میں نجی سفارتی بات چیت پر بات نہیں کروں گا۔“ انہوں نے امن کی حوصلہ افزائی پر زور دیتے ہوئے کہا: ”ہم بھارت اور پاکستان کے درمیان سیزفائر کا خیرمقدم کرتے ہیں اور دونوں وزرائے اعظم کو امن کا راستہ اختیار کرنے پر سراہتے ہیں۔“
جب ان سے پوچھا گیا کہ بھارت کی جانب سے ثالثی قبول کرنے سے سے انکار کے باوجود کیا امریکہ دونوں ممالک کو مذاکرات کے لیے ایک ساتھ کیسے لا سکتا ہے تو انہوں نے کہا: ”میں اس پر قیاس آرائی نہیں کروں گا۔“ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان براہ راست رابطے کی حمایت جاری رکھے گا اور دونوں ممالک کی قیادت کو ”دانائی اور بردباری“ دکھانے پر سراہتا ہے۔
پاکستانی نیوکلیئر سائٹس سے مبینہ تابکاری کے اخراج کے بعد پاکستان میں کسی امریکی ٹیم کے بھیجے جانے کے سوال پر پگوٹ نے کہا: ”میرے پاس اس حوالے سے فی الحال کوئی معلومات پیش کرنے کو نہیں۔“