دنیا کو تفریح فراہم کرنے والی ’میٹا‘ کمپنی کے ملازمین خوف کے سائے میں، ماحول کینسر قرار

0 minutes, 1 second Read

حال ہی میں میٹا (Meta) کے ایک سابقہ محقق نے کمپنی چھوڑنے سے قبل ایک اندرونی ای میل میں نہ صرف سخت تنقید کی بلکہ کمپنی کی اے آئی ڈویژن کو ایک ’میٹاسٹیٹک کینسر‘ سے تشبیہ دی، یعنی ایسا زہریلا مرض جو پورے ادارے میں پھیلتا جا رہا ہے۔

یہ پیغام دینے والے Tijmen Blankevoort میٹا کے معروف ایل ایل اے ایم اے ماڈلز پر کام کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے۔ اپنی رخصتی سے قبل انہوں نے جو باتیں کیں وہ صرف ایک ناراض ملازم کی شکایت نہیں تھیں، بلکہ انہوں نے ایک ایسے ادارے کی تصویر پیش کی جو بظاہر اے آئی کی دنیا میں آگے بڑھنے کے لیے کوشاں ہے، لیکن اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

میٹا کی ’سُپر انٹیلی جنس‘ کیا ہے؟ اس پر کام کیلئے مارک زکربرگ ذاتی طور پر لوگ کیوں چن رہے ہیں؟

بلانک فورٹ کے مطابق، میٹا کی اے آئی ٹیم جس میں اب دو ہزار سے زائد افراد شامل ہیں، نہ صرف بداعتمادی کا شکار ہے بلکہ بیشتر افراد کو اپنی سمت اور مقصد کا بھی علم نہیں۔ انہوں نے کہا، ’زیادہ تر لوگ یہاں خوش نہیں ہیں۔ وہ جانتے ہی نہیں کہ ہمارا مشن کیا ہے‘۔ کمپنی کے اندر بار بار ہونے والے پرفارمنس ریویوز اور چھانٹیوں نے ملازمین کے حوصلے پست کر دیے ہیں۔

یہ صورتحال اس وقت سامنے آئی ہے جب میٹا اپنی اے آئی صلاحیتوں کو وسعت دے رہا ہے تاکہ اوپن اے آئی اور گوگل ڈیپ مائینڈ جیسے حریفوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ حال ہی میں کمپنی نے ’ سپر انٹیلیجینس لیب’ کے نام سے ایک نیا یونٹ قائم کیا ہے، جس کا مقصد آرٹیفیشل جنرل انٹیلیجنس (AGI) کی تعمیر ہے۔ بڑے بڑے ماہرین کو بھاری تنخواہوں پر بھرتی کیا جا رہا ہے، اور رپورٹ کے مطابق کچھ کو 10 کروڑ ڈالر تک کی سائننگ بونس کی پیشکش ہوئی ہے۔

میٹا کی اے آئی ایپ پر پرائیویسی کا بحران: صارفین کی نجی گفتگو عوامی طور پر لیک ہونے لگی

اگرچہ میٹا نے اینٹروپک، اوپن اے آئی اور ایپل جیسے اداروں سے اعلیٰ سطحی محققین کو بھرتی کیا ہے، مگر بلانک فورٹ کی رائے اس تاثر کو چیلنج کرتی ہے کہ ’صرف قابل لوگ‘ بھرتی کر لینے سے سب کچھ بہتر ہو جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک ادارے کی اندرونی فضا خوف، غیر یقینی اور مقصد کے فقدان سے بھری ہو، تب تک کوئی بھی ٹیم اپنی مکمل صلاحیت پر کام نہیں کر سکتی۔

یہ ایک اہم لمحہ ہے جب ہمیں سمجھنا ہو گا کہ بڑی ٹیک کمپنیاں صرف باہر سے کامیاب نظر آتی ہیں۔ اندرونی ماحول، ٹیم ورک، اور قیادت کا انداز اگر زہریلا ہو تو بڑی سے بڑی ٹیکنالوجی بھی ناکامی کی دہلیز پر جا کھڑی ہو سکتی ہے۔ بلانک فورٹ کا پیغام ایک وارننگ کی گھنٹی ہے، کہ ہمیں صرف مصنوعی ذہانت کے ’کمالات‘ پر خوش ہونے کے بجائے اس کے پیچھے کام کرنے والے انسانوں کی حالت پر بھی غور کرنا چاہیے۔

Similar Posts