غزہ اور تل ابیب میں صورتحال کشیدہ: برطانوی ارکان پارلیمنٹ کا حکومت سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ

0 minutes, 0 seconds Read

برطانوی دارالحکومت لندن میں برطانوی پارلیمنٹ کے باہر فلسطین کے حق میں ایک بڑا مظاہرہ کیا گیا جس میں مظاہرین نے اسرائیل اور برطانوی حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ مظاہرے کا انعقاد کالعدم قرار دی گئی تنظیم ”فلسطین ایکشن“ کی جانب سے کیا گیا، جس میں غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں جن کے نتیجے میں کم از کم چالیس افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔

مظاہرین نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا جبکہ کئی افراد فلسطینی ریاست کے قیام کے حق میں پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے۔ مظاہرے کے دوران صورتحال اس وقت کشیدہ ہوئی جب مظاہرین نے پارلیمنٹ کی عمارت کے قریب رکاوٹیں عبور کرنے کی کوشش کی۔

ادھر لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے ساٹھ ارکانِ پارلیمنٹ نے برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی کو ایک مشترکہ خط لکھا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت فوری طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے۔ ارکان نے اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کو زبردستی جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں منتقل کرنے کے منصوبے کو غیر انسانی اور ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ خط میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر فلسطینی ریاست کو تسلیم نہ کیا گیا تو دو ریاستی حل کی حمایت غیر مؤثر ہو جائے گی۔

دوسری جانب غزہ میں اسرائیلی بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں کم از کم 110 فلسطینی شہید ہوئے ہیں، جن میں سے 34 افراد اُس وقت جاں بحق ہوئے جب وہ غذائی امداد کے انتظار میں کھڑے تھے۔ شمالی غزہ میں اسرائیلی فضائیہ نے چالیس سے زائد حملے کیے جن میں پناہ گزین کیمپ اور امدادی مراکز بھی نشانہ بنے۔

محکمہ صحت غزہ کے مطابق اب تک مجموعی طور پر 57,882 فلسطینی شہید اور 137,887 زخمی ہو چکے ہیں۔ صورتحال بدستور انسانی بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔

اُدھر اسرائیل میں بھی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے خلاف عوامی غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ تل ابیب میں ہزاروں افراد نے سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کیے جن میں نیتن یاہو کے استعفے، حماس کے ساتھ مکمل جنگ بندی اور غزہ میں یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ مسلسل جنگ نے اسرائیلی شہریوں کو بھی عدم تحفظ کا شکار بنا دیا ہے اور حکومت کو فوری طور پر مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ یاد رہے دوحہ میں جاری مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہیں کیونکہ حماس نے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا کی شرط رکھی ہے۔ تاہم ذرائع کے مطابق امریکہ کی جانب سے پیش کردہ ساٹھ دن کی جنگ بندی کے منصوبے پر بالواسطہ بات چیت جاری رہنے کی امید ہے۔

فلسطین اور اسرائیل کے مابین جاری جنگ نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر سفارتی، انسانی اور سیاسی کشیدگی کو مزید بڑھا رہی ہے۔

Similar Posts