خلا سے واپسی پر خلانوردوں کی بینائی جانے لگی، ناسا نے نوٹس لے لیا

0 minutes, 2 seconds Read

خلا میں چھ ماہ یا اس سے زیادہ وقت گزارنے والے خلانورد زمین پر واپسی کے بعد بینائی کے سنگین مسائل کا سامنا کر رہے ہیں اور ماہرین کے مطابق یہ خلائی مشنوں کا نیا اور تشویشناک پہلو بن کر سامنے ابھرا ہے۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کی جاری تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (ISS) پر طویل قیام کرنے والے تقریباً 70 فیصد خلانورد واپسی پر دھندلی نظر، پڑھنے میں دشواری اور آنکھوں کے دباؤ جیسے مسائل کی شکایت کرتے ہیں۔

زمین کو 6 نئے چاند ملنے والے ہیں؟

یہ علامات اب باقاعدہ ایک سائنسی اصطلاح SANS (Spaceflight-Associated Neuro-Ocular Syndrome) کے تحت شناخت کی جا رہی ہیں، جس کا براہِ راست تعلق مائیکرو گریویٹی سے جوڑا جا رہا ہے۔

ناسا کی میڈیکل ٹیمز کے مطابق کئی خلانوردوں کو واپسی پر زیادہ طاقت کے چشموں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ان کی آنکھوں کے اندر optic disc یعنی وہ مقام جہاں نظر کی رگ ریٹینا میں داخل ہوتی ہے، اس میں سوجن دیکھی گئی۔ ساتھ ہی آئی بال کی ساخت میں معمولی تبدیلی، یعنی چپٹا پن، بھی ریکارڈ ہوا۔

چینی سائنسدانوں کا کارنامہ، کاربن ڈائی آکسائیڈ کو غذا میں تبدیل کردیا

ایک سابقہ خلانورد، ڈاکٹر سارہ جانسن، نے بتایا کہ خلا میں چھ ماہ گزارنے کے بعد زمین پر واپس آ کر انہیں وہ تحریر پڑھنے میں دُشواری ہونے لگی جسےوہ مشن سے پہلےباآسانی پڑھ لیتے تھے۔

دراصل زمین پر کششِ ثقل خون اور جسمانی سیال کو نیچے کی سمت کھینچتی ہے، جبکہ خلا میں یہ فلوئڈز چہرے، دماغ اور آنکھوں میں جمع ہو جاتے ہیں، جس سے دماغی دباؤ بڑھنے اور آنکھوں کی ساخت میں تبدیلی واقع ہونے لگتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ خلانوردوں کو اکثر چہرے پر سوجن، سر درد، اور بینائی کی خرابی جیسے مسائل پیش آتے ہیں۔ ناسا کا ماننا ہے کہ یہ دباؤ ہی ایس اے این ایس جیسے مسئلے کا بنیادی سبب ہے۔

ناسا اس مسئلے کے حل کے لیے کئی تحقیقی منصوبے چلا رہا ہے۔ جس میں یہ جانچا جا رہا ہے کہ کیا ٹانگوں پر کساؤ والے بینڈ لگا کر خون کو جسم کے نچلے حصے میں رکھا جا سکتا ہے تاکہ دباؤ کم ہو۔

اس کے علاوہ ایم آر آئی اسکین، آنکھوں کی تصویریں، ورچوئل ریالٹی اسکریننگ، اورآپٹک نرو کے غلاف کی پیمائش جیسے جدید طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں تاکہ اس مسئلے کی مکمل تصویر سامنے آ سکے۔

ایک دلچسپ واقعہ میں ایک خلانورد، جسے خلا میں ایس اے این ایس کی شدید علامات ظاہر ہوئیں، زمین پر واپس آ کر بی وٹامنز کے استعمال اور خلائی کیبن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کم ہونے کے بعد کافی حد تک صحت یاب ہو گیا۔

کینیڈین اور جاپانی سائنسدانوں نے اپنی تحقیق میں یہ بھی نوٹ کیا کہ خلا میں لمبے وقت گزارنے سے آنکھوں کے ٹشوز کی خصوصیات تبدیل ہونے لگتی ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے عمر رسیدگی کے باعث آنکھوں کے امراض (مثلاً گلوکوما) پیدا ہوتے ہیں۔

جاپان کی ایک تحقیق میں خلا سے واپس آنے والے چوہوں میں آنکھوں کی جین ایکسپریشن میں بھی تبدیلیاں دیکھی گئیں، جو ظاہر کرتی ہیں کہ خلا جسم کے بنیادی ڈھانچے پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔

ایس اے این ایس نہ صرف موجودہ خلا نوردوں بلکہ چاند اور مریخ کے آئندہ مشنز کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناسا اور دیگر خلائی ایجنسیاں اس کے علاج، بچاؤ اور مکمل سمجھ بوجھ کے لیے مسلسل کام کر رہی ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج نہ صرف خلانوردوں کی مدد کر سکتے ہیں بلکہ زمین پر موجود ان مریضوں کے لیے بھی امید کی کرن بن سکتے ہیں جو جسم میں سیال کی غیر معمولی گردش یا آنکھوں کی بیماریوں کا شکار ہیں۔

Similar Posts