یورپ کے گرم موسم میں، جب پیرس، لندن، روم یا ایتھنز جیسے شہروں میں درجہ حرارت آسمان چھو رہا تھا تب ایک امریکی سیاح نے ایک کیفے میں بیٹھ کر تازگی بخش مشروب کا آرڈر دیا، مگر یہ مشروب برف کے بغیر نیم گرم پیش کیا گیا۔
سی این این کے مطابق نیویارک کی رہائشی اسابیل ٹان نے بتایا کہ اٹلی میں شدید گرمی کے دوران جب وہ کیفے میں بیٹھی تو مشروب کے ساتھ صرف ایک برف کا ٹکڑا آیا۔ جب انہوں نے مذاقاً ایک ”برف کی بالٹی“ مانگی، تو انہیں چھوٹی بالٹی فراہم کردی گئی جس پر وہ حیران رہ گئیں۔
یورپ اور امریکہ میں مشروبات میں برف ڈالنے کے حوالے سے ایک واضح ثقافتی فرق موجود ہے۔ مورخ جوناتھن ریس کے مطابق، امریکیوں میں برف کا استعمال بہت شوق سے کیا جاتا ہے اور یہ ایک عام عادت ہے۔
19ویں صدی میں بوسٹن کے تاجر فریڈرک ٹیودر نے برف کی صنعت کو فروغ دیا، جو نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں برف کی سپلائی کیا کرتے تھے۔ انہوں نے امریکی بارز کو مفت برف دی تاکہ لوگ اس کے عادی ہو جائیں اور یہ حکمت عملی کامیاب ہوئی۔
زنانہ پتلون پہننے والے مرد کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا؟ بالآخر خواتین کی جدوجہد مان گیا
مصنفہ ایمی بریڈی کے مطابق، امریکہ میں برف کو سماجی حیثیت کی علامت بھی سمجھا جاتا رہا ہے۔ بڑے ریفریجریٹرز اور آئس ڈسپینسرز عام ہیں، جب کہ یورپ میں یہ رواج نہیں پایا جاتا۔
برف کے استعمال پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ بعض لوگ، جیسے برطانوی-فرانسیسی برف کو مشروب کا ذائقہ بگاڑنے والا سمجھتے ہیں۔
دوسری جانب، کینیڈین زوئی میک کارمک، جو پیرس میں مقیم ہیں، کہتی ہیں کہ یورپ میں ریفریجریٹر بھی ٹھنڈے نہیں ہوتے، اور اکثر مشروبات نیم گرم ہوتے ہیں۔
امریکی سیاح اکثر سوشل میڈیا پر اس فرق پر طنزیہ تبصرے کرتے ہیں۔ تاہم، مورخ ریس اور بریڈی دونوں کا کہنا ہے کہ یہ تجربہ مختلف ثقافتوں کو سمجھنے کا ایک اچھا موقع ہے، اور بہتر ہے کہ اسے مایوسی کی بجائے تجسس سے دیکھا جائے۔
چین میں جڑواں پانڈا کی تیسری سالگرہ منائی گئی، ویڈیو وائرل
بریڈی کا مشورہ ہے کہ جب آپ کسی یورپی کیفے میں نیم گرم پانی پائیں تو اسے ناقص سروس کے بجائے ایک ثقافتی فرق سمجھیں۔
لہٰذا اگر آپ اس موسم گرما میں یورپ جا رہے ہیں تو برف کی کمی پر پریشان نہ ہوں، آئس کریم، جیلاتو اور ٹھنڈے مشروبات کے اور بھی کئی مقامی طریقے موجود ہیں۔