پنجاب میں چینی کی قیمت اور دستیابی کے بحران نے نیا رخ اختیار کرلیا ہے، جب کہ شوگر ملز مالکان اور ڈیلرز کے درمیان تنازعہ تاحال حل نہیں ہو سکا۔ چینی کی خرید و فروخت پر جاری کشیدگی کے باعث بازاروں میں چینی کی سپلائی معطل ہے، جب کہ عوام مہنگی چینی خریدنے پر مجبور ہیں۔
ذرائع کے مطابق شوگر ملز مالکان بحران پر براہ راست میڈیا سے بات کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کا مؤقف حکومت کو معلوم ہے اور وہ بحران کے حل کے لیے اپنی سطح پر کوششیں کر رہے ہیں۔ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ چینی کے اسٹاکس میں کسی قسم کی قلت نہیں پائی جا رہی۔
دوسری جانب شوگر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے رہنما سہیل ملک نے الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شوگر ملز مالکان نے وزارت پیداوار سے ملی بھگت کر کے چینی کو برآمد کر دیا، جس سے اربوں روپے کا منافع ہڑپ کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’125 روپے والی چینی کو 167 روپے فی کلو بیرون ملک بیچا گیا، اب جب مقامی مارکیٹ میں بحران پیدا ہوا تو سارا الزام صرف ڈیلرز پر ڈال دیا گیا۔‘
سہیل ملک نے خبردار کیا کہ 31 جولائی کے بعد مقامی اسٹاکس ختم ہو جائیں گے، جس کے بعد چینی کی دستیابی مزید محدود ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر چینی کی قیمت 190 روپے فی کلو تک لے جائی جائے تو شاید مسئلہ وقتی طور پر حل ہو جائے، لیکن حکومت اور عوام کے لیے یہ ناقابل قبول ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب حکومت اتوار بازاروں اور فئیر پرائس شاپس پر چینی 170 روپے میں فراہم کر سکتی ہے، لیکن اصل حل مارکیٹ کو آزاد چھوڑنے میں ہے۔ سہیل ملک کا دعویٰ ہے کہ کئی شوگر ڈیلرز اس وقت ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) پر آ جانے کے خدشے کے باعث روپوش ہو چکے ہیں۔
یاد رہے کہ حکومت نے شوگر ملز کو چینی 165 روپے فی کلو فراہم کرنے کی ہدایت دی تھی، لیکن آج بھی ڈیلرز کو اس نرخ پر چینی دستیاب نہ ہو سکی۔