غزہ، تاریخی امن معاہدہ

مصر کے شہر شرام الشیخ میں غزہ امن منصوبے پر باضابطہ دستخط ہوگئے۔ ایک پروقار تقریب کے دوران امریکا، مصر، ترکیہ کے صدور اور امیر قطر نے غزہ جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے۔ تقریب میں وزیراعظم شہباز شریف بھی موجود تھے۔ اس موقع پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ آج تاریخی دن ہے، جنگ بندی معاہدے نے مشرق وسطی میں نئے دورکا آغازکردیا ہے۔

 دو برس کے ایک طویل اور خونی باب کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے زخم خوردہ خطے میں ایک نئی صبح کا آغاز ہوا ہے۔ اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کے درمیان جس جنگ بندی معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں، اس نے نہ صرف لاکھوں فلسطینیوں کے دلوں میں امید کی ایک کرن روشن کی ہے بلکہ عالمی سفارت کاری کے ایک نادر کامیاب باب کے طور پر دنیا کے سامنے آیا ہے۔

غزہ کی دو برس سے جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 67,000 سے زائد زندگیاں ختم ہو چکی ہیں، ایک لاکھ سے زیادہ زخمی اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔ یہ اعداد محض اعداد نہیں، بلکہ ہر ایک کے پیچھے ایک کہانی، ایک خاندان، ایک خواب دفن ہے۔ غزہ اور اسرائیل کے درمیان اکتوبر 2025 میں ہونے والا نیا امن معاہدہ اس بات کی علامت ہے کہ شاید اب وہ وقت قریب ہے جب جنگ کی راکھ سے امن کا نیا سویرا جنم لے گا۔

23 لاکھ کی آبادی پر مشتمل غزہ کھنڈر بن چکا ہے جب کہ غزہ کی آبادی حالیہ تاریخ کے بدترین قحط کا سامنا کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی کو کرہ ارض پر سب سے زیادہ بھوک اور خوراک کی کمی کا سامنا ہے،تاہم امن معاہدے کے باوجود خطرات ابھی ختم نہیں ہوئے۔ اسرائیل حماس کے مکمل غیر مسلح ہونے پر اصرار کر رہا ہے جب کہ حماس اپنی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرانے پر زور دے رہی ہے۔ دونوں فریقوں کے درمیان اعتماد کی کمی اب بھی ہے، اگر امن کی کوششوں کے ساتھ تعمیرِ نو کا عمل سست یا متنازع ہوا تو تشدد دوبارہ جنم لے سکتا ہے۔

 غزہ امن معاہدہ ایک خوش آیند قدم ہے مگر فلسطینی عوام کے ایک علیحدہ اور آزاد اور ریاست کے قیام کو کس حد تک ممکن بناتا ہے، اس کے متعلق فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ اِسرائیلی حملوں کے پیچھے بنیادی مقصد یہی رہا ہے کہ غزہ سے فلسطینی مسلمانوں کو بے دخل کرکے غزہ پر اپنا مکمل کنٹرول قائم کیا جائے جب کہ مغربی کنارے کا علاقہ پہلے ہی چاروں اطراف سے اِسرائیل کے نرغے میں ہے۔ ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کا پہلا مرحلہ اگر مکمل ہوجاتا ہے تو بعد کے مراحل کی تفصیلات پر بات چیت اس کے بعد ہوگی۔

البتہ 20 نکاتی منصوبے کے بہت سے نکات پر حماس کا متفق ہونا مشکل ہو سکتا ہے جیسا کہ حماس نے اس سے قبل اپنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایسا صرف اس وقت کرے گی جب فلسطینی ریاست قائم ہو جائے گی۔ ایک اور اہم point sticking  اسرائیلی فوج کی واپسی کی حد ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے پہلے انخلاء سے وہ غزہ کے تقریباً 53 فیصد حصے پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے گا۔ وائٹ ہاؤس کے منصوبے کے مطابق اس کے بعد 40 فیصد اور پھر 15 فیصد تک مزید انخلا ہوگا۔

آخری مرحلے میں، اسرائیلی افواج کا انخلاء ایک نامزد’’سیکیورٹی بفر زون‘‘ تک ہوگا جس کی وجہ سے غزہ کا ایک محدود حصہ اسرائیلی فوج کے کنٹرول میں رہے گا جب کہ ایک بین الاقوامی انتظامی ادارہ عبوری دورکی نگرانی کرے گا۔ فلسطین اور اِسرائیل کے مابین دو ریاستی حل کے سلسلے میں مشرقی یروشلم کا اسٹیٹس اور فلسطینی مہاجرین کی واپس اپنے آبائی علاقوں میں آباد کاری دو مرکزی نوعیت کے اختلافی اِیشوز ہیں۔

ان عوامل کی وجہ سے اِسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کی مہم شروع کی ہوئی ہے جس کا مقصد دو ریاستی حل کے منصوبے کو مکمل طور دفن کرنا ہے اور فلسطینی مسلمانوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کرکے ان علاقوں پر اپنا قبضہ جمانا ہے۔ اسی لیے اسرائیل روز بروز یہودی بستیوں کی تعمیر میں اضافہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ صدر ٹرمپ کی ثالثی میں کیے گئے حالیہ ’’ امن معاہدے‘‘ کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کس حد تک اپنی commitment پر قائم رہتے ہیں اور اسرائیل پر اپنا leverage  استعمال کرتے ہوئے اسرائیل سے امن معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بناتے ہیں۔

ادھر اس منصوبے کے نفاذ، فلسطینی سرزمین کی صحیح حد بندی، اسرائیلی انخلاء کا وقت اور دائرہ کار، بین الاقوامی اسٹیبلائزیشن فورس (ISF) کے کردار سمیت غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینی عوام پر اس منصوبے کے طویل مدتی اثرات کے بارے میں بہت سے سوالات کے جوابات ابھی باقی ہیں،غزہ کی تعمیرِ نو ایک دہائی یا اس سے زائد کا عرصہ لے سکتی ہے جس کے لیے سیکڑوں ارب ڈالرز درکار ہوں گے۔

دس سال قبل امریکا نے موصل (عراق) کی تعمیرِ نو کے لیے ایک عالمی اتحاد تشکیل دیا تھا، جب شہر داعش کے خلاف ایک سال کی طویل لڑائی کے بعد تباہ ہو گیا تھا۔ امن معاہدہ کے تحت غزہ کا انتظام و انصرام سنبھالنے والی کمیٹی اور انتظامیہ میں غزہ کے 23 لاکھ لوگوں کا کوئی ایک بھی نمایندہ شامل نہیں ہوگا۔ غزہ کے شہری تمام ضروریات زندگی کے لیے غیر ملکی انتظامی کمیٹی کے محتاج ہونگے جس کی سربراہی سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کریں گے۔

بات یہ نہیں کہ غزہ کے عوام میں باصلاحیت افراد کی کمی ہے، اگر افراد کا تقرر غزہ سے باہر کے لوگوں میں سے کرنا ہے تو اس صورت میں بھی فلسطینی بیک گراونڈ کے حامل بہترین ایکسپرٹ امریکا اور بر طانیہ میں بھی موجود ہیں تاہم کمیٹی میں کسی بھی فلسطینی کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔نیتن یاہو نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ وہ کبھی بھی آزاد فلسطینی ریاست قائم نہیں ہونے دیں گے، تاہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کو دیکھیں اور اب تک کے کیے گئے معاہدوں کو اسٹڈی کیا جائے گا۔

بین الاقوامی عدالت انصاف کی جانب سے گزشتہ سال اسرائیل کے خلاف آنے والے فیصلہ بمقدمہ ساؤتھ افریقہ بنام اسرائیل کو دیکھیں تو آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں ہی پائیدار امن کی ضمانت ملتی ہے جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔ کیا اقوام عالم ایک آزاد فلسطینی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھ سکے گی، آنے والے ماہ و سال میں اس سوال کا جواب مل جائے گا۔ مگر غزہ کی تباہی اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ معاملہ ہے۔ اسرائیلی ماہرین کے مطابق یہاں 300 میل طویل سرنگوں کا ایک نیٹ ورک موجود ہے، جو دو دہائیوں میں تعمیر ہوا تھا، اور دنیا نے اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔

اس موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی اور ان کی جانب سے معاہدے پر دستخط اس بات کا اظہار ہے کہ واشنگٹن اب اس خطے میں محض فوجی طاقت یا مشروط حمایت کی پالیسی کے بجائے سیاسی مفاہمت اور سفارتی عمل کو ترجیح دینے پر آمادہ ہوا ہے۔ امن کی اس کوشش میں مصر، قطر اور ترکیہ کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، جنھوں نے نہایت باریک بینی اور برد باری کے ساتھ ایک ایسا سفارتی راستہ ہموار کیا جو دونوں فریقوں کے لیے قابلِ قبول ٹھہرا۔

یہ امر خوش آیند ہے کہ عالمی طاقتیں اب اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو رہی ہیں کہ غزہ یا فلسطین کی قسمت کا فیصلہ باہر سے نہیں، بلکہ اندر سے ہونا چاہیے، تاہم، یہ امن معاہدہ اپنی جگہ پر ایک سنگ میل ضرور ہے، مگر اسے منزل قرار دینا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ غزہ، مغربی کنارہ، یروشلم اور دیگر فلسطینی علاقوں میں ماضی میں بھی کئی بار جنگ بندی معاہدے ہوئے مگر وہ دیرپا ثابت نہ ہو سکے۔

اس کی بنیادی وجہ عدم اعتماد، طاقت کا عدم توازن، آبادکاری کی پالیسی اور فلسطینی ریاست کے قیام سے مسلسل انکار رہا ہے، اگر اسرائیل واقعی امن کا خواہاں ہے تو اسے نہ صرف فلسطینی علاقوں سے غیر مشروط انخلا کرنا ہوگا بلکہ فلسطینی ریاست کو تسلیم بھی کرنا ہوگا۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس معاہدے کو کامیاب بنانے کے لیے فوری طور پر غزہ کی تعمیر نو اور وہاں انسانی بنیادی سہولتوں کی فراہمی ازحد ضروری ہے۔ دو برس پر محیط بمباری، محاصرے اور اقتصادی ناکہ بندی نے غزہ کو کھنڈر بنا دیا ہے، اگر دنیا واقعی امن چاہتی ہے تو اسے صرف قراردادوں یا معاہدوں پر انحصار کرنے کے بجائے زمینی حقائق پر توجہ دینا ہوگی۔ اسکول، اسپتال، پانی، بجلی اور روزگار جیسی بنیادی سہولتوں کی بحالی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

آخر میں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ امن ایک دن میں قائم نہیں ہوتا۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما عمل ہے۔ اس عمل میں کئی بار ناکامیوں، دھوکا دہی اور پیچھے ہٹنے کے امکانات ہوتے ہیں، مگر اگر نیتیں صاف ہوں اور عالمی برادری سنجیدہ ہو تو ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

غزہ کا یہ معاہدہ ایک موقع ہے کہ دنیا خود کو ایک بہتر، انسان دوست اور پُرامن سمت میں لے کر جائے۔ یہی وقت ہے کہ مشرق وسطیٰ میں خون کی لکیر کو مٹایا جائے اور ایک ایسا مستقبل تراشا جائے جہاں فلسطینی، اسرائیلی، عرب اور دنیا بھر کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ امن، انصاف اور احترام کے ساتھ رہ سکیں، ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

Similar Posts