ناسا کی جدید ترین خلائی دوربین ’جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ‘ کی مدد سے ماہرین فلکیات نے ایک نوجوان ستارے کے گرد موجود ملبے کی گیس اور گردوغبار کی ڈسک میں پانی کی جمی ہوئی برف یا ’کرسٹلنگ واٹر آئس‘ کی واضح اور پہلی بار تصدیق کی ہے۔
یہ اہم دریافت 23 ملین سال پرانے ستارے HD 181327 کے گرد کی گئی، جو زمین سے تقریباً 155 نوری سال کی دوری پر واقع ہے۔ اس ستارے کا نظامِ شمسی ہماری سورج کی طرح ہے، مگر یہ ذرا زیادہ گرم اور بھاری ہے۔ اس کے گرد موجود ملبے کی ڈِسک ہماری نظامِ شمسی کی کوائپر بیلٹ سے مشابہ ہے، جو ہمارے نظام میں برفیلی دُور دراز اجسام کا علاقہ ہے۔
ناسا نے سورج کے قریب پراسرار گولہ ریکارڈ کرلیا، خلائی مخلوق کا جہاز قرار
تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ چین شیے نے کہا, ’ویب نے نہ صرف پانی کی برف کی موجودگی کو واضح طور پر دریافت کیا بلکہ یہ بھی ظاہر کیا کہ یہ برف ’کرسٹلائن‘ شکل میں ہے. جیسی کہ زحل کے حلقوں یا ہماری کوائپر بیلٹ میں دیکھی جاتی ہے۔‘
ماہرین کے مطابق اس ملبہ جاتی ڈسک میں مسلسل تصادم ہو رہے ہیں۔ جب برفیلے اجسام آپس میں ٹکراتے ہیں، تو ان سے چھوٹے ذرات نکلتے ہیں جن میں پانی کی برف ہوتی ہے۔ یہ ذرات جیمز ویب کی حساس نظروں کے لیے قابلِ دریافت ہو جاتے ہیں۔
ناسا کے پارکر پروب نے سورج کے قریب پہنچ کر تاریخ رقم کردی
دلچسپ بات یہ ہے کہ پانی کی برف پورے نظام میں یکساں طور پر نہیں پائی گئی بلکہ زیادہ تر وہیں دیکھی گئی جہاں درجہ حرارت سب سے کم تھا، یعنی ستارے سے دُور کے علاقوں میں۔ تحقیق کے مطابق مڈل بیلٹ میں تقریباً 8 فیصد پانی کی برف کی موجودگی نوٹ کی گئی، جہاں امکان ہے کہ برفیلے ذرات کی پیدائش ان کی تباہی سے قدرے تیز ہو۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ دریافت اس بات کی طرف اشارہ کر سکتی ہے کہ دیگر سیاروی نظاموں کی تشکیل میں بھی پانی کا وہی کردار ہو سکتا ہے جو ہماری زمین اور نظامِ شمسی میں رہا ہے۔
ناسا نے دو ایٹمی گھڑیاں خلا میں پہنچا دیں، وجہ کیا ہے؟
سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی اس تحقیق سے اب ماہرین امید کر رہے ہیں کہ وہ کہکشاں میں موجود دیگر نوجوان ستاروں اور اُن کے گرد گھومتے ملباتی نظاموں میں بھی پانی کی برف تلاش کر سکیں گے۔